۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 401044
30 جولائی 2024 - 20:57
عادل فراز

حوزہ/پارلیمانی انتخابات میں کراری شکست کے بعد بی جے پی مسلسل بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔اس پر آر ایس ایس کے لیڈروں کی مسلسل تنقید نے اس کے حواس باختہ کردئیے۔ آر ایس ایس نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کئے لیکن بی جے پی کے دیگر قدآور لیڈروں کے ساتھ اب تک کسی خفیہ یا علانیہ جلسے کی خبر نہیں ہے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| پارلیمانی انتخابات میں کراری شکست کے بعد بی جے پی مسلسل بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔اس پر آر ایس ایس کے لیڈروں کی مسلسل تنقید نے اس کے حواس باختہ کردئیے۔ آر ایس ایس نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کئے لیکن بی جے پی کے دیگر قدآور لیڈروں کے ساتھ اب تک کسی خفیہ یا علانیہ جلسے کی خبر نہیں ہے۔

خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ کوئی خوشگوار رابطہ نظر نہیں آیا۔موہن بھاگوت اور اندریش کمار نے اپنے بیانات میں وزیر اعظم کی سیاسی ناعاقبت اندیشی کو نشانہ بنایاہے ۔یہ الگ بات کہ ان سب کے اپنے اپنے دکھڑے ہیں جن کا عوامی فلاح وبہبود سے کوئی تعلق نہیں ۔اترپردیش میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے الگ راگ الاپ رہے ہیں ۔اہم سیاسی اور سرکاری جلسوں میں بھی وہ نظر نہیں آرہے ہیں ۔کہاجارہاہے کہ وہ یوگی آدتیہ ناتھ کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں ۔اگر ایساہے تو پھر کیشوپرساد موریہ کا گروہ بھی کمزور نہیں ہے ۔ان کا عہدۂ نیابت صلاحیت کی بنیاد پر کم، ان کے اثرورسوخ کی بنیاد پر زیادہ ہے ۔اس لئے اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے مشکلات کم نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ نفرت اور تقسیم کی سیاست پر مزید انحصار کرنے لگے ہیں ۔پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد تو ان کے رویّے میں مزید سختی آئی ہے ۔جب کہ شکست کے بعد انہیں اپنے رویّے اور سیاسی حکمت عملی پر از سرنوغورکرنا چاہیے تھامگر ان کا مزاج ہندوستان کی سیکولر قدروں کے خلاف ہے ،اس لئے ان سے اس بارے میں زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی ۔

وزیر اعلیٰ یوگی آتیہ ناتھ نے کانوڑ یاتراکے پیش نظر جو غیر آئینی فرمان جاری کیاہے اس پر عدالت عظمیٰ نے سخت رخ اپنایاہے ۔آخر کانوڑ یاتریوں کے لئے اس سے پہلے اس طرح کی احتیاطی تدابیر کیوں اختیارنہیں کی گئیں ؟ہندوستان میں ہر شخص اپنی مرضی کا کھانا منتخب کرنے کے لئے آزاد ہے ۔ہوٹلوں ،ڈھابوں اور مہنگے ریسٹورینٹ میں کوئی بھی انسان مذہب یا مسلک دیکھ کر نہیں جاتا بلکہ وہ اپنی پسند کا کھانا کھانے کے لئے جاتاہے ۔سڑکوں اور شاہراہوں پر جو غریب پھلوں اور سبزیوں کے ٹھیلے لگاتے ہیں ان سے بھی کبھی مذہب اور مسلک کی بنیادپر خریدار ی نہیں کی جاتی ۔اگر دوکانوں اور ٹھیلوں پر مالکان کے ناموں کی تختیاں آویزاں کردی جائیں گی تو ملک میں مذہبی نفرت کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔آخر یوگی آدتیہ ناتھ مذہبی یاتراکو نفرت کی یاتراکیوں بنانا چاہتے ہیں ؟اس یاترا پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا جب کہ شہروں ،قصبات اور دیہاتوں سے کانوڑیے گذرتے ہیں مگر کبھی ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہوا۔لیکن یوگی حکومت کے اس فیصلے کےبعد مذہبی منافرت میں مزیداضافہ ہوگا ۔بعید نہیں کہ اس کے بعد ملک کا ماحول بدسے بدتر ہوجائے ،اس لئے ایسے فیصلوں کو روکنا تمام ایسے افراد کی ذمہ داری ہے جو ملک کے سیکولر کردار میں یقین رکھتے ہیں۔

’کانوڑ یاترا‘ہندوئوں کی مذہبی یاتراہے ۔اس یاترامیں کیا کچھ ہوتاہے یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔برسراقتدار جماعت کے کارکنان اور زعفرانی تنظیموں کے رضاکار کانوڑیوں کو نشہ آور اشیاء فراہم کرتے ہیں ۔نشے کی حالت میں وہ اپنا آپا کھوبیٹھتے ہیں اور ذراذراسی بات پر تشدد پر اتاولے ہوجاتے ہیں ۔کانوڑیوں کے ہنگاموں ،جھگڑوں اور من مانیوں کی خبریںموصول ہوتی رہتی ہیں مگر ضلع انتظامیہ کبھی ان کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کرتی ۔اس کی بنیادی وجہ حکومت کا کانوڑیوں کو فراہم کیا گیاتحفظ ہے ۔کانوڑئیے جو چاہے کریں ان پر کسی طرح کی پابندی عائد نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی ان کے شورشرابے ،ہنگامے اور جھگڑوں سے تنگ آکر کچھ کرتاہے تو ضلع انتظامیہ جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یک طرفہ کاروائی کرتی ہے ۔میرٹھ میں جس طرح کانوڑیوں نے غنڈہ گردی کی اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کے لئے قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔وہ خود کو قانون اور آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔اس کاخمیازہ عام انسانوں کو بھگتناپڑتاہے ۔جب کہ محرم میں روایتی جلوسوں اور پروگراموں کی بھی اس طرح نگرانی کی جاتی ہے کہ جیسے فساد کا اندیشہ صرف انہی جلوسوں میں ہے ۔کالے پرچم اور علم لگانے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور شاہراہوں پر شورشرابے اور مائک کے ہنگامے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ایساہونا بھی چاہیے کہ عام شاہراہوں کو شورشرابے سے پاک رکھاجائے لیکن کیا یہ پابندیاں صرف مسلمانوں کے لئے ہیں؟کانوڑیاترامیں مائک اور مذہبی نغموں کا شور پولیس کو سنائی نہیں دیتا؟یہ امتیازی سلوک ملک کے لئے خوش آئند نہیں ہے ۔

حکومت کے اس فرمان کے خلاف سیکولر قدروں میں یقین رکھنے والے افراد نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاتھا۔ان میں این جی او پروٹیکشن آف سول رائٹس ،ٹی ایم سی لیڈرمہوا موئترا،پروفیسر اپورواننداور ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق سربراہ آکارپٹیل شامل ہیں۔ان افراد کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس رشی کیش رائے اور ایس این وی بھٹی کی دورکنی بینچ نے بی جے پی کی زیر حکمرانی ریاستوں سے اس بارے میں جواب طلب کیااور عارضی طورپر اس فرمان پر پابندی عائد کردی۔سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت کے فیصلے پر روک لگاتے ہوئے کہاکہ اگر اس طرح کا حکم نافذ کیاگیاتو یہ ملک کے سیکولر کردار سے انحراف ہوگا۔جب کہ پورا ملک یہ بات بخوبی جانتاہے کہ بی جے پی ملک کے سیکولر کردار میں یقین نہیں رکھتی ،اس لئے اس طرح کے فیصلے لئے جاتے ہیں ۔عدلیہ نے یوگی حکومت کے اس فیصلے کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے ناراضگی کا اظہارکیاتھا۔اترپردیش حکومت نے اپنے فیصلے کا تحفظ کرتے ہوئے فوڈ اینڈ سیفٹی اسٹینڈرڈز ایکٹ کا حوالہ دیا۔اس پر عدالت نے سخت گرفت کرتے ہوئے کہاکہ اگر ایساہے توپھر اس قانون کا نفاذ پوری ریاست میں ہونا چاہیے تھالیکن مخصوص علاقوں میں ہی اس کا نفاذ کیوں کیاگیا؟اس بارے میںاترپردیش حکومت سے عدالت نے مزید جواب طلب کیاہے کہ آیا یہ حکم پوری ریاست میں نافذ ہے یا پھر مخصوص علاقے اس کے دائرۂ اثر میں ہیں ۔جب کہ سینئر وکیل ابھشیک منوسنگھوی نے اترپردیش سرکار کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ۶۰ سالوں میں کانوڑ یاتراکے دوران کبھی دوکان مالکان کو اپنا نام ظاہر کرنے کی ہدایت نہیں دی گئی ۔جب کہ اترپردیش حکومت نے اپنے حلف نامہ میں اعتراف کیاہے کہ یہ حکم امتیازی نوعیت کاہے ،اگرچہ یہ بھی کہاگیاہے کہ یہ حکم عارضی ہے مستقل نہیں ۔گویاکہ اترپردیش حکومت نے خواستہ یا نخواستہ یہ تسلیم کرہی لیاکہ یہ حکم کانوڑیاترا سے مخوص ہے اور اس کا مقصد امتیازی سلوک کو رواج دیناہے ۔اترپردیش حکومت نے اپنے حلف نامے میں بے سرپیر کے دعوے کرتے ہوئے کہاکہ نام کی تختی لگانے کا حکم امن و امان برقرار رکھنے کے لئے دیاگیاہے ۔کیونکہ لاکھوں کانوڑ یاتری ننگے پائوں چلتے ہیں اور اگر وہ ایسی جگہ پر نادانستہ طورپر کھانا کھالیں جو ان کی پسند کا نہیں تو حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔یہ حکم کسی خاص برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کے لئے نہیں دیاگیابلکہ یہ ان سخت غذائی عادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جاری کیاگیاہے جن کی کانوڑ یاتراکے دوران اور اس سے پہلے پیروی کی جاتی ہے ۔

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلسل امتیازی سلوک میں اضافہ ہواہے ۔اس سے پہلے مسلمان سبزی فروشوں اور ٹھیلے والوں کو ہندو اکثریتی علاقے میں داخل ہونے سے روکا گیاتھا۔اس وقت بھی ایسے افراد سامنے آئے تھے جو جمہوری اور سیکولر قدروں میں یقین رکھتے تھے ۔جس ملک میں سرعام دھرم سنسدوں میں گولی مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہوں اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہو،وہاں امن کی پاسداری عوامی سطح پر ممکن نہیں ہے ۔اگر اس ملک کا مزاج سیکولر نہ ہوتا فاشسٹ طاقتیں کب کی اپنی منافرانہ پالیسیوں میں کامیابی حاصل کرچکی ہوتیں۔مگر ان کی راہ میں ایسے افراد رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جو ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب اور سیکولر مزاج کو سمجھتے ہیں ۔ایسے ہی لوگوں کو تلاش کرکے قتل کیاجاتاہے اور نذر زندان کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔گوری لنکیش اور ہیمنت کرکرے کا قتل اس دعویٰ کی شہادت کے لئے کافی ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .